سی پیک کے بلوچستان میں کوئی ثمرات دکھائی نہیں دے رہے، عبدالمالک بلوچ

0 97

اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ میں چین کےساتھ بلوچستان سے متعلق ہونےوالے معاہدوں کا علم نہیں تھا،سی پیک کے بلوچستان میں کوئی ثمرات دکھائی نہیں دے رہے،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
کوئٹہ( امروز ویب ڈیسک)بلوچستان کی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاہے کہ انہیں اپنے اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ میں چین کے ساتھ بلوچستان سے متعلق ہونے والے معاہدوں کا کوئی علم نہیں تھا۔خبر رساں ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ اس وقت وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ چین کے دوروں پر جانا بھی اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ معاہدوں کے بارے میں لاعلم رکھا جاتا تھا۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق سی پیک کے بلوچستان میں کوئی ثمرات دکھائی نہیں دے رہے۔ بد قسمتی سے ان معاہدوں پر پرویز مشرف دور میں دستخط ہوئے تھے جس میں لکھا گیا تھا کہ 93 فیصد آمدن چین اور سات فیصد آمدن وفاقی حکومت کو ملے گی اوربلوچستان اور گوادر کے عوام کو اس آمدن کی تقسیم میں کچھ نہیں ملے گا۔انہوں نے کہاکہ بحیثیت قوم ہمارے خدشات ہیں

کہ گوادر میں اتنی وسیع پیمانے پر آباد کاری ہوگی جس سے بلوچ یا گوادرکے لوگ اقلیت میں آجائیں گے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ مطالبہ تھا کہ سی پیک کے تحت آمدنی، سرمایہ کاری اور ملازمتوں میں بلوچستان اور گوادر کا حصہ ہونا چاہیے لیکن ایسٹ بے شاہراہ اور گوادر ایئر پورٹ کے منصوبے کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ملنے والے پیسوں اور منصوبوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں ملا اور وہ پیسے باقی صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں خرچ ہوئے۔ ڈاکٹر عبد المالک بلو چ نے کہا کہ انہیں علم نہیں کہ چین بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ کوئی مذاکرات کر رہا ہے اور نہ ان کے دور حکومت میں چین نے ایسی کوئی خواہش ظاہر کی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ چین کے بلوچستان میں مفادات ہیں بلوچستان کی معدنیات کی کانوں میں وہ کام کر رہا ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا گوادر پورٹ اس کے پاس ہے۔ چین کا سی پیک کے حوالے سے بھی لمبا چھوڑا بڑا پروگرام ہے اس لیے چین کے ضرور بلوچستان میں کچھ سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک مفادات ہوں گے جلاوطن ناراض بلوچ رہنماو¿ں سے مذاکرات کیوں کامیاب نہیں ہوسکے؟

اس سوال پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ جلا وطن بلوچ رہنماءمذاکرات کے لیے بالکل سنجیدہ تھے مذاکرات شروع کرنے کے دو یا تین مہینے بعد ہماری حکومت ختم ہوئی۔ بعد میں آنے والی حکومت نے اس مسئلے میں دلچسپی لینا چھوڑدی۔سول سائیڈ میں نواز شریف اور ہماری صوبائی حکومت کی خواہش تھی کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھی اس زمانے میں تعاون اور خواہش تھی۔ میرے خیال میں میرے جانے کے بعد چیزیں بدل گئیں۔ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور حکومت میں کرائے گئے سینیٹ یا بلدیاتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس وقت سالانہ صوبائی ترقیاتی بجٹ ( پی ایس ڈی پی ) میں بھی کوئی کردار نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا اگر کوئی کردار تھا تو وہ صرف امن وامان کے حوالے سے تھا کیونکہ تب امن وامان کی صورتحال بگڑی ہوءتھی۔سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے مزید کہا کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی کبھی نہیں کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہیں۔ سب ٹھیک پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ جونہی ہماری حکومت بنی تیسرے یا چوتھے دن نواز شریف اپنے ساتھ چین کے دورے پر پر لے گئے۔

باقی دوروں میں ان کے ساتھ نہیں تھا۔ اس کے بعد ایک بار شہباز شریف کے ساتھ چین گیا لیکن بعد میں ان کے ساتھ چین جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ آپ لوگ چین کے ساتھ جو معاہدے کررہے ہیں اس کا مجھے پتہ نہیں اس لئے میں آپ کے معاہدوں کا حصہ نہیں بنوں گا۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہ معاہدے آپ کے دور میں ہوئے لیکن ہم نے بلوچستان کے ہرمسئلے پر آواز اٹھائی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف حکومت اور اپنے دو اڑھائی سالہ وزارت اعلیٰ میں چین کے ساتھ بلوچستان میں مواصلات اور توانائی سمیت دیگر شعبوں میں کیا معاہدے ہوئے مجھے کم از کم پتہ نہیں ہے،بلوچ قوم پرست رہنما نے کہا کہ لاپتہ افراد ایک انسانی مسئلہ ہے اور پچھلے کئی سالوں میں بلوچستان میں یہ مسئلہ روز بروز گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنی انا کو تسکین دینے کے لیے ایک جنگ شروع کی جو آج تک ہمیں جلا رہی ہے۔ لاپتہ افراد کا بھی تعلق اسی شورش سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا شروع سے ہی مو¿قف ہے کہ اس شورش کا واحد علاج مذاکرات ہے۔

مذاکرات کے بغیر شورش ختم نہیں ہوتی۔ لاپتہ افراد کو قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی جیسے بنیادی سوالات کو آگے لے کر جا رہی ہے۔ بلوچستان میں راتوں رات پارٹیاں بنتی ہیں۔ ہم لوگ جو مظلوم اقوام یا مظلوم طبقات ہیں۔ ان کی پناہ جمہوریت میں ہے جمہوریت ہوگی تو ہماری آواز کوئی سنے گا۔ جمہوریت نہیں ہوگی تو خاص طور پر بلوچ، پشتون اورسندھی اقوام کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں اور مذہبی جماعتوں نے سینیٹ انتخابات میں کبھی اپنا ووٹ فروخت نہیں کیا۔ جن جماعتوں نے ووٹ فروخت کیے ہیں جن کا جھکاو¿ ہمیشہ حکومتوں کی طرف ہوتا ہے۔ مختلف جماعتوں میں ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر ہوتی ہے۔ وہی ووٹ بیچتے ہیں۔ اس دفعہ بھی وہی ہوگا

اپوزیشن کے ووٹ فروخت نہیں ہوں گے۔مستقبل میں باپ جیسی جماعتوں کے ساتھ حکومت کے لیے اتحاد تشکیل دینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب تک تین تین یا چار چار جماعتیں اکٹھی نہیں ہوتیں تو حکومتیں نہیں بنتیں مخلوط حکومت بنانا یہاں مجبوری ہے اگر بڑی جماعتیں الیکٹ ایبلز کو نہ لیں تو عا م آدمی ان کو شکست دے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر ہم متواتر دباو¿ ڈال رہے ہیں کہ آپ الیکٹ ایبل کے چکر سے نکل جائیں۔ میرا اپنا 30، 35 سال کا تجربہ ہے کہ جب ہم اشرافیہ کے خلاف کام کرتے ہیں اور وہ شکست کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کو پیپلز پارٹی یا ن لیگ سہارا دے دیتی ہے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ انہیں عمران خان کی جانب سے یوٹرن لینے پر کوئی اعتراض نہیں، سیاست میں یو ٹرنز ہوتے ہیں لیکن عمران خان سنجیدہ اور سلجھے ہوئے سیاستدان کی طرح عمل نہیں کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک وزیراعظم کہیں کہ میں اپنے مخالفین سے ہاتھ ملانا اور بات کرنا بھی گوارہ نہیں تو یہ جمہوریت کے لیے بہت مشکل صورتحال ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.