شہید اسداللہ مینگل و احمد شاہ بلوچ کو اٹھتالیسویں برسی

تحریر۔ صدیق کھیتران

0 301

تحریر۔ صدیق کھیتران

6 فروری 1974 شھید اسد جان مینگل، شھید احمد شاہ بلوچ کو کراچی میں لاپتہ کیا گیا۔جو اولین گمشدہ افراد میں لاپتہ کیئے گئے ۔راہشون سردار عطاء اللہ مینگل مرحوم کے بڑے صاحبزادے اسد اللہ جان مینگل و احمد شاہ بلوچ بھٹو دور میں خفیہ اداروں نے کراچی میں لاپتہ کردیا تھا۔ سردار عطااللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعلیٰ اور بلوچستان کی قوم پرست سیاست کے چوتھے ستون تھے جو اپنی تلخ اور اصول پرست سیاست کی وجہ سے ذاتی المیوں اور صدموں سے بھی گزرے۔سردار عطااللہ مینگل کے بیٹے اسداللہ جان مینگل جو بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے اولین فرد تھے بیٹے کی جبری گمشدگی راہشون سردار عطااللہ مینگل سیاسی سفر میں ذاتی صدمہ دیکھنے والے پہلے سیاست دان تھے۔ وہ جب کراچی میں اسیر تھے ۔

کہ ان کے بیٹے اسد اللہ مینگل کی گمشدگی کا واقعہ پیش آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا جمہوری حکومت کا دور تھا ۔کہ اسد اللہ مینگل اپنے دوست احمد شاہ کرد کے ساتھ وقوعہ کی رات کو بلخ شیر مزاری کے گھر آئے تھے بلخ شیر مزاری گھر میں نہیں تھے۔کہا جاتا ہے ۔ کہ کسی نے گھر کا دروازہ کھولا اور اسداللہ مینگل اور ان کے دوست اندر گئے اور بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد دونوں باہر نکلنے کے بعد انہیں مسلح افراد نے خفیہ طور پر اغوا کرکے لاپتہ کر گئے ۔ جو برسوں گزر گئے، اسد اللہ مینگل کی نہ لاش ملی اور نہ ہی کہیں سے زندہ ہونے کا کوئی سراغ مل سکا۔ ان کا شمار بلوچستان سے جبری گمشدہ پہلے افراد میں شمار ہوتا ہے۔راہشون سردار عطااللہ جب سیاست میں آئے تو قبائلی سردار ہونے کے باوجود اُنھوں نے نیم قبائلی اور نیم سرداری جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھرپور جدوجہد کی اور ایک مثبت سوچ وطن دوست اور قوم پرست کے حوالے سے بھرپور کردار ادا کیا

۔نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت اور بعد میں بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور اختر مینگل کی گرفتاری سے ان کے مزاج میں تلخی آتی گئی اور ان کا مؤقف میڈیا سے لاپتہ ہوتا گیا اور زندگی کے آخری دنوں میں اُنھوں نے میڈیا سے قطع تعلق کر دیا۔اسد اللہ خان مینگل و احمد شاہ کرد کی گمشدگی کے جو سلسلہ شروع ہوا ہے جو اب تک ہزاروں نہتے شہریوں، نوجوانوں کی زہنی ازیت خانوں میں رکھا ھوا ھے۔ جسکی وجہ سے بلوچستان میں قومی حقوق حاصل کرنے کیلئے نظریآتی فکری شعوری بیداری کی بڑھوتری دینے میں جمہوری  جدوجہد کو بلوچستان نیشنل پارٹی نے پارلیمنٹ کے فورم سے لیکر جمہوری انداز کو استوار کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔مگر آج بھی بلوچستان میں پرتشدد واقعات کا رونما معمولات بن چکا ہے

۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے موجودہ حکومت کو چھ نکات کی شکل میں بلوچستان کے حقوق و سیاسی و جمہوری انداز میں درپیش مشکلات، مسائل، تحفظات کئی عشروں کی لامحالہ مخدوش محرومیوں کے خاتمے کیلئے چارٹر آف ڈیمانڈ ڈیموکریٹک موو پر مسودہ ،، ایم او یو،، کہ شکل میں رکھا ۔ مگر حالات کو بہتر نہ کرنے والی قوتوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے چھ نکات کو کوئی تقویت ،اہمیت فوقیت نہ دیتے ہوئے حسب سابقہ روش کو مدنظر رکھکر مکمل نظرانداز کر دیئے گئے۔جو بلوچستان پورا شورش و خوزدہ لرزہ خیز علاقہ بن چکا ہے۔جسمیں دن بدن بڑھتی ہوئی بے رحمانہ بے روزگاری نے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں بے چینی پیدا کردی ہے۔ اور روز بروز میرٹ کی پامالی ہورہی ہے اور سفارشی کلچر نے پنجے مضبوط کردیئے ہیں ۔ عام شہری کیلئے زندہ رھنا محال ھوگیا ھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.