چند لوگوں کی خواہش اور کسی کے دباﺅ میں آکر مستعفی نہیں ہوسکتا، وزیراعلیٰ بلوچستان

0 59

چند لوگوں کی خواہش پر تبدیلی سے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا بلوچستان متحمل نہیں ہوسکتا اپوزیشن سمیت تمام ممبران کو برابری کی بنیاد پر فنڈز دیئے ہیں کسی کے دباﺅ میں آکر مستعفی نہیں ہوسکتا ،وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال
کوئٹہ(امروز ویب ڈیسک)وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ چند لوگوں کی خواہش پر تبدیلی سے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا بلوچستان متحمل نہیں ہوسکتا اپوزیشن سمیت تمام ممبران کو برابری کی بنیاد پر فنڈز دیئے ہیں کسی کے دباﺅ میں آکر مستعفی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے اتحادی میرے ساتھ ہیں اور ہم تمام آپشنز استعمال کرتے ہوئے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے،

کوشش رہی ہے کہ تمام معاملات تحفظات اور خدشات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جائے لیکن کچھ ساتھی ہم سے نالاں رہے ہیں کیونکہ جب کسی کے پاس کوئی منصب یا ذمہ داری ہوتی ہے تو وہ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتا کوئی نہ کوئی کسی بات پر نالاں رہتا ہے اور گلے شکوے ہوتے رہتے ہیں۔یہ بات انہوں نے جمعہ کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس کوئٹہ میں سینئر صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے تین سالہ دور میں صوبے کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان میں تعلیم، صحت ، انفراسٹرکچر کی بہتری اور دیگر حوالوں سے جو کام کروائے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ اپوزیشن سمیت تمام ممبران کو برابری کی بنیاد پر فنڈز دیئے ہیں پارٹی صدارت اور امور کے حوالے سے مشاورت اور گفت و شنید سے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں اور نہ ہی بات چیت کے لئے دروازے بند کئے جاتے ہیں

وزیراعلیٰ جام کمال خان کا کہنا تھا کہ چند لوگوں کی خواہش پر تبدیلی سے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا بلوچستان متحمل نہیں ہوسکتا میرے دروازے بحیثیت چیف ایگزیکٹو منتخب نمائندوں سمیت سب کیلئے کھلے ہیں کسی کے دباﺅ میں آکر مستعفی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے اتحادی میرے ساتھ ہیں اور ہم تمام آپشنز استعمال کرتے ہوئے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی قیام سے لیکر اب تک مختلف مسائل سے دو چار رہی ہے اور 2018ءسے ہی اس میں اونچ نیچ آتے رہے ہیں لیکن ہم نے بلوچستان کی پسماندگی اور لوگوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیا اور قلیل مدت میں کامیاب ہوکر برسر اقتدار آئے اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر حکومت بنائی کیونکہ ہماری شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ تمام معاملات تحفظات اور خدشات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جائے

لیکن کچھ ساتھی ہم سے نالاں رہے ہیں کیونکہ جب کسی کے پاس کوئی منصب یا ذمہ داری ہوتی ہے تو وہ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتا کوئی نہ کوئی کسی بات پر نالاں رہتا ہے اور گلے شکوے ہوتے رہتے ہیںانہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس میں قانونی قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کیا گیا جس کے بعد ہماری جماعت کے ساتھی بھی ناراض اراکین کی شکل میں سامنے آئے میں نے تمام ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں تاکہ ا ن کے تحفظات اور خدشات کا جائزہ لے سکوں کسی کے بھی تحفظات اور خدشات اجتماعی نوعیت کے منصوبوں اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نہیں تھے بلکہ معمولی نوعیت کے تھے جن کے ذریعے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جاسکتا

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے ہمارے دوستوں سے جو وعدے کئے گئے اس کے بعد انہوں نے اپنے استعفےٰ گورنر کو پیش کئے۔ اب ان کی وہ قسم بھی پوری ہوگئی ہے لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے ساتھی کیسے ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ناراض دوست وزارتوں سے مستعفی ہونے کے بعد واپس آسکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے جو وعدے کئے تھے۔ وہ پورے ہوگئے وہ ہمارے بھائی ہیں صوبے میں کسی بھی منتخب نمائندے کے علاقے میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی غیر منتخب نمائندے کے ذریعے کوئی کام کرایا ہے بلکہ صوبہ بھر میں اجتماعی نوعیت کے اسکیمات شروع کرائی ہیں جو کسی خاص علاقے یا حلقے میں نہیں بلکہ بلوچستان بھر میں کام کرائے ہیں۔ سردار صالح بھوتانی کی اسکیمات جو انہوں نے تجویز کی تھی وہ پی ایس ڈی پی میں شامل کی گئیں جبکہ میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنے حلقے کے لئے کوئی اسکیم نہیں دی اور نہ ہی وہ رابطے میں ہیں

بلکہ انہوں نے ہم سے اپنا رابطہ بھی منقطع کر رکھا ہے ہم نے بی اے پی کے کسی ناراض رکن کے حلقے میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ انہیں فنڈز دیئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مدت میں 18 ماہ کا عرصہ باقی ہے اگر اس وقت کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ بلوچستان کو بھگتنا پڑے گا اور اس کا نقصان حکومت اور اپوزیشن کو ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے تین سالہ دور اقتدار کی پی ایس ڈی پی اور ماضی کی حکومتوں کی پی ایس ڈی پی کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ہم نے اپوزیشن کو کتنے فنڈز دیئے ہیں اور سابقہ دور میں اپوزشین کو کتنے فنڈز ملے تھے۔

میری کوشش رہی ہے کہ میں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو فروغ دوں تاکہ تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہوکر مسائل کے حل کو ممکن بنا سکوں۔وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے ہمیشہ بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیا ہے۔انہوں نے حکومت کو مضبوط بنانے کےلئے ہر موقع پر اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.