چین مغربی ممالک کے لیے بڑا خطرہ ہے: ٹونی بلیئر
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے چین کو مغربی ممالک کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
بلیئر نے تمام مغربی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ’دنیا کی دوسری سپر پاور‘ کے طور پر ابھرتے ہوئے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوں۔
گذشتہ روز ڈِچلے فاؤنڈیشن سے سالانہ خطاب میں سابق برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ مغربی سیاسی اور اقتصادی غلبے کا دور ختم ہو رہا ہے۔ ایسے میں مغربی ممالک کو چین کے خلاف ’طاقتور اور تجارتی‘ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق ٹونی بلیئر نے کہا کہ مغربی ممالک کو ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر کے اپنی ’سافٹ پاور‘ کو بڑھانا جاری رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی فوجی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے دفاعی بجٹ میں بھی اضافے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے تجویز دی کہ مغربی ممالک کو اپنی ملکی سیاست میں جاری ہنگامہ خیزی کو فوری طور پر ختم کر کے ’عقلی حکمت عملی‘ کو بحال کرنا چاہیے۔
بلیئر نے کہا کہ ’چین نے ٹیکنالوجی کے کئی شعبوں میں پہلے ہی امریکہ کی طرح غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ چین اس صدی کی سب سے بڑی جغرافیائی سیاسی تبدیلی کا سبب بنے گا، روس نہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ کئی بار تائیوان پر قبضے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ شی جن پنگ کی قیادت میں چین جارحانہ طور پر ’اثر‘ کے لیے مقابلہ کر رہا ہے۔
’چین نہ صرف ہماری طاقت بلکہ حکومتی مشینری اور طرز زندگی کو بھی چیلنج کرے گا۔ ایسے میں مغرب کو اپنی حکومتی مشینری اور اقدار کے تحفظ کے لیے کافی مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔‘
بلیئر نے کہا کہ ’دنیا کم از کم دو قطبی اور ممکنہ طور پر کثیر قطبی ہونے والی ہے۔ جدید تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مشرق مغرب کے برابر ہو سکتا ہے۔‘
’ہمارے پاس ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ترقی پذیر ممالک مغربی کاروبار کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران چین پر ان کا عدم اعتماد بڑھ گیا ہے۔ انھیں مغربی نظام ہماری سوچ سے زیادہ پسند ہے۔‘
خیال رہے کہ ماضی میں چین کی خلیجی ممالک میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن معاشی و سیکیورٹی کے تعاون کے معاملے پر جی سی سی کے رکن ممالک کے ساتھ چین کا رویہ اب بدل رہا ہے۔ امریکہ کے جارحانہ رویے اور ایشیا پیسیفک علاقے میں نئے اتحادیوں کی تلاش کو اگر مدنظر رکھا جائے تو چین اہم شراکت دار کے طور پر سامنے آتا ہے۔
چین اور روس نے گذشتہ سال فوجی مشقیں بھی کی ہیں اور یہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی مزید مثالیں ہیں۔