پی یو جی / سلو میٹر چارجز سے متعلق فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو دینگے، جسٹس نعیم اختر افغان
کوئٹہ (امروز ویب ڈیسک)بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس جناب جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو صارف گیس استعمال کرے گا وہ بل بھی ضرور دے گا ، گیس چوروں کو سزا ملنی چاہیے لیکن ایک غلط آدمی کی وجہ سے دس شریف صارفین کو تنگ کرنا خلاف قانون ہے ، پی یو جی /سلو میٹر چارجز سے متعلق فیصلہ 23دسمبر 2021کو دیں گے ،
اس سے قبل کہ لوگ صنوبر کے نایاب درختوں کو ایندھن کے طور پر جلا ڈالے زیارت کو گیس کی سپلائی سے متعلق میکینزم بنا کر دیا جائے ، جہاں گیس چوری ہوتی ہے وہاں ضلعی انتظامیہ ، پولیس اور لیویز سے مدد لی جائے ، کمپنی کے کنزیومر سینٹرز میں لوگوں کی بار بار پیشیاں ہوتی ہیں آپ خود کہہ رہے ہیں کہ پی یو جی /سلو میٹر چارجز قابل واپسی ہے لیکن ہمارے بھیجے گئے شخص کو سسٹم خرابی کا کہہ کر واپس کیا گیا ۔
گزشتہ رو زسینئر قانون دان سید نذیر آغاایڈووکیٹ ،فرزانہ خلجی ایڈووکیٹ اور سلطانہ ثروت ایڈووکیٹ کی جانب سے سوئی سدرن گیس کمپنی اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر درخواست گزار سید نذیر آغا ایڈووکیٹ ، سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل منیجر مدنی صدیقی ، کمپنی کے وکیل کامران مرتضی ایڈووکیٹ ، عدنان شیخ ایڈووکیٹ ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شہیک بلوچ ، مسعود دوتانی ایڈووکیٹ ، موسی جان کاکڑ ایڈووکیٹ و دیگر موجود تھے ۔سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 158کے مطابق کسی بھی معدنی وسائل پر سب سے پہلے مقامی افراد کا حق ہے مگر بلوچستان میں صارفین کو گیس پریشر کی کمی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا ہے اور کمپنی صارفین کو پی یو جی /سلو میٹر چارجز بھی بھیج رہی ہے
جو آئین کی آرٹیکل 25کی خلاف ورزی ہے ۔ سندھ میں بھی سوئی سدرن گیس کمپنی صارفین کو گیس فراہم کررہی ہے لیکن وہاں پی یو جی /سلو میٹر چارجز اور دیگر جرمانے اتنے نہیں ہیں جتنے بلوچستان میںوصول کئے جارہے ہیں ۔ کراچی میں میٹر ٹیمپرنگ پر ایک صارف سے 7ہزار جبکہ بلوچستان میں 48ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں ، اس وقت بھی ضلع پشین ، قلات ، مستونگ ، زیارت سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں صارفین کو گیس لوڈشیڈنگ اور پریشر کی کمی کا سامناہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی یو جی /سلو میٹر چارجز سے متعلق 23دسمبر کو آرڈر جاری کررہے ہیں ۔ سماعت کے دوران کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اوگرا آرڈیننس کے آرٹیکل 6، 7، 12اور 43کے تحت صارف کو بل اور دیگر سے متعلق شکایات کے لئے کنزیومر کورٹس سے رجوع کرنا چاہیے ، مجسٹریٹس کی عدالتیں کنزیومرکورٹس ہی ہیں اس سلسلے میں ہائی کورٹ میں دائر کی گئی
آئینی درخواست قابل سماعت نہ ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل منیجر مدنی صدیقی نے عدالت کوبتایا کہ کراچی میں صارفین کی جانب سے گیس کا استعمال کم ہوتاہے جبکہ بلوچستان میں گیس کا استعمال زیادہ ہے اس لئے کراچی میں کنزیومر کو جرمانے ودیگر کم ہوتے ہیں ۔ سماعت کے دوران مسعود دوتانی ایڈووکیٹ اور موسی جان کاکڑ ایڈووکیٹ نے بینچ کے ججز کو بتایا کہ زیارت میں گیس پریشر کی کمی اور لوڈشیڈنگ کا صارفین کو سامنا ہے بلکہ زیارت کراس پر مین وال کو بند کرکے سپلائی روکی جاتی ہے