سی پیک معاہدے پر جن حکومتوں نے دستخط کئے آج وہ بھی پچھتا رہے ہیں، سردار اختر مینگل

0 171

کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹر غضنفر کھیتران ) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترجان مینگل نے ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کو50فیصد شیئرز دینے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ صوبے کی ترقی کے نام پر استحصال ،بلوچستانیوں کے تحفظات دور کئے جائیں تو ہی ریکوڈک معاہدے میں حمایت پرسوچ سکتے ہیں ،گیس سے ملک میں بڑی بڑی صنعتیں قائم اوربڑے شہر آباد ہوگئے لیکن سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے لوگ آج بھی کھانا پکانے کیلئے لکڑی جلاتے ہیں ،یہاں اعتماد کے فقدان نے بلوچستان میں احساس محرومی ،ناراضگی پیدا ہوئی ہے

اسی ناراضگی سے بغاوت اور بغاوت سے لوگوں نے آزادی کے جھنڈے اٹھا لئے ہیں،شنید میں آیاہے کہ ریکوڈک منصوبے کے نئے معاہدے میں بلوچستان کو25فیصد ،25فیصد وفاق کو جبکہ50فیصد متعلقہ کمپنیوں کے ہونگے ،بلوچستان سے نکلنے والی گیس کے حساب سے متعلق سوال کرنا نہ صرف غداری اور ملک دشمنی کے زمرے میں آتاہے بلکہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑھ جاتاہے ،ریکوڈک سے متعلق اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ان کیمرہ اجلاس کو آن کیمرہ لاکر سب کے سامنے رکھاہے ، بلوچستان نیشنل پارٹی جام کمال کو نکالنے کے ثواب میں شامل ہیں لیکن عبدالقدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شامل نہیں ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے خاران ہاﺅس کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک عبدالولی کاکڑ، ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ،بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمدشاہوانی ،پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ ، میرعبدالرﺅف مینگل ،موسیٰ جان بلوچ ودیگر بھی موجود تھے ۔سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بی این پی کے مرکزی کابینہ کااجلاس تھا جس میں ریکوڈک سمیت دیگر اہم مسائل زیر بحث آئے ،بی این پی پر ہمیشہ یہ الزامات لگائے گئے کہ ہم ترقی مخالف ہے ہم نے ہمیشہ اس ترقی کی حمایت کی جس کافائدہ بلوچستان کو ملا ہوں اور اس ترقی کی مخالفت کی ہے جو ترقی کے نام پر استحصال کا باعث بن رہا ہوں ،حالیہ ریکوڈک سے متعلق جو بریفنگ دی گئی ہے مرکزی کابینہ نے بریفنگ کاجائزہ لیا ہم ترقی مخالف نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا ہوا جاگ کو بھی پونک پونک کردیکھاہے ہم دودھ اور پانی دونوں کے جلے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہمارے حکمران اس بات کا تسلی دیں یا حساب کتاب دیں کہ آج دن تک بلوچستان کے نام پر جو ترقی کی گئی ہے یہاں گیس دریافت کی گئی

،اوجی ڈی سی ایل اور پی پی ایل نے یہاں گیس دریافت کی اور بلوچستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی بنی وہ گیس جو ملک کے کونے کونے تک پہنچ گئی بڑی صنعتیں قائم کئے گئے بڑے شہر آباد ہوئے لیکن بلوچستان آباد ہونے کی بجائے تباہی کے دہانے پر جا پہنچا رائلٹی بھی پوری نہیں مل رہی جو رائلٹی دی جاتی تھی وہ خیرات کی صورت میں مل رہی تھی جو ایک بڑا المیہ تھا سوئی گیس کی آگ میں پورا ملک ترقی کرچکاہے بلوچستان کو تو چھوڑ دیں چند ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کے علاوہ بلوچستان اس گیس سے محروم ہیں آج بھی سوئی اور ڈیرہ بگٹی سے لوگ لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتے ہیں پورے ملک میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بلوچستان کو توگیس ملتی بھی نہیں یہاں کوئٹہ میں کھانا پکانے کیلئے گیس میسر نہیں ہے

یہاں بہت سے مثالیں ملیں جو بلوچستان کوترقی کے نام پر لوٹا گیاہے ،سیندک پر کئی عرصے سے کام ہوا روزگار دینے کی بجائے معدنی دولت لوٹ لی گئی ،سی پیک کے نام پر ترقی پر روز اول سے ہم چیختے چلاتے رہے ہیں بلوچستان کاصرف نام تھا اصل ترقی دوسرے صوبے کر گئے ہیں ،1999ءمیں ہمارا جو موقف تھا ہم نے اسی وقت کہاتھا جب یہ سی پیک نہیں تھا2013ءکے بعد سی پیک کا شوشہ چھوڑا گیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دعوتیں دی گئی ہے لیکن گوادر میں 65ملین ڈالر کی رقم کے باوجود بنیادی وسائل سے محروم ہیں ماہی گیروں سے ان کا روزگار چھینا گیا دوسرے صوبوں سے ماہی گیروں کے آنے سے مقامی ماہی گیروں کا استحصال کیاجارہاہے ،انہوں نے کہاکہ اعتماد کے فقدان نے بلوچستان میں احساس محرومی ،ناراضگی ،ناراضگی سے بغاوت اور بغاوت سے لوگوں نے آزادی کے جھنڈے اٹھا لئے ہیں بلوچستان میں آج کو آپریشنز ہورہے ہیں

اس کے پیچھے وہ سابقہ وموجودہ حکمرانوں کی وہ ناانصافیاں ومحرومیاں عوامل ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا یا ان خدشات اور تحفظات کو دور نہیں کیاجاتا ہم کسی صورت یقین نہیں کرسکتے ،6نکات کا جو معاہدہ موجودہ حکومت سے کیاگیا تھا اس میں انہی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی لاپتہ افراد ،گوادر یا بلوچستان کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی ،معدنی وسائل کی روک تھام کیلئے ریفائنری قائم کی جائیں ،انہوں نے کہاکہ سیندک سے جو کچھ جارہاہے اس کا حکومت بلوچستان کو بھی علم نہیں ہے اس پروجیکٹ سے سونا،تانبا سمیت کونسے معدنیات کتنے نکلے ہیں کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے اس اندازے پر پرچہ تھما دیتے ہیں کہ آپ کی رائلٹی 2فیصد بنتی ہے ہم اس کو مال غنیمت سمجھ کر گزارہ کرتے ہیں

بلوچستان سے جو گیس نکلی ملک کے کونے کونے پہنچی لیکن کسی کے پاس کوئی حساب نہیں کہ کتنا گیس نکلا ہے جب ہم حکومت میں تھے تو حتی الوسیع کوشش کی کہ پتہ چلے کہ بلوچستان سے کتنا گیس نکل رہاہے بدقسمتی سے یہ سوال کرنا غداری ،ملک دشمنی کے زمرے میں آتاہے بلکہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑھ جاتاہے وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر کتنا عمل درآمد ہواہے

Leave A Reply

Your email address will not be published.