وزیراعلیٰ جام کمال خود اعتراف کیا ہے کہ انہیں محض 26ارکان کی حمایت حاصل ہے، اپوزیشن ارکان
اس وقت صورتحال سب کے سامنے واضح ہے وزیراعلیٰ اب وزیراعلیٰ کہلانے کے قابل نہیں رہے انکے پاس اکثریت نہیں ہے ،پریس کانفرنس
کوئٹہ(امروز ویب ڈیسک) بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال خا ن خود اعتراف کیا ہے کہ انہیں محض 26ارکان کی حمایت حاصل ہے آرٹیکل 130(7)کے تحت آئینی تقاضہ ہے کہ گورنر محسوس کرے کہ وزیراعلیٰ اکثریت کھو چکے ہیں تو اسمبلی کا اجلاس بلا کر وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لیا جاتا ہے لہذا گورنر آج بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے وزیراعلیٰ کواعتماد کا ووٹ لینے کا پابند کریں
۔ یہ بات بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خا ن ایڈوکیٹ، بی این پی کے پارلیما نی لیڈر ملک نصیر شاہوانی، رکن صوبائی اسمبلی ثناءبلوچ نے ہفتہ کی شب اپوزیشن جماعتوں کے مشتر کہ اجلاس کے بعد بلوچستان اسمبلی کے احاطے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ارکان اسمبلی زابد علی ریکی، اختر حسین لانگو، اصغرعلی ترین، حمل کلمتی، یونس عزیز زہری، حاجی نواز کاکڑ، مولوی نور اللہ، سید عزیز اللہ ، بی این پی کے سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، میر عبدالرﺅف مینگل، عین اللہ شمس، حافظ خلیل احمد سارنگزئی سمیت دیگر بھی موجود تھے
۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ 14ستمبر کو تحریک اعتماد جمع ہوئی جسے گورنر کے پاس بھیجا گیا مگر اس پر تکنیکی بنیادوں پر اب فیصلہ نہیں کیا گیا اس وقت صورتحال سب کے سامنے واضح ہے وزیراعلیٰ اب وزیراعلیٰ کہلانے کے قابل نہیں رہے انکے پاس اکثریت نہیں ہے گور نر ذہین اور قوانین سے واقف شخصیت ہیں جب 10افراد مستعفیٰ ہو جائیں اور اپوزیشن کے ارکان بھی ملا لیا جائے تو ہمیں34 ارکان کی اکثریت حاصل ہے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ انکے پاس 26لوگ ہیں جب انکے پاس 33ارکان کی سادہ اکثریت موجود نہیں ہے تو جام کمال خان وزیراعلیٰ کہلانے کے قابل نہیں ہیں 14ستمبر سے لیکر آج تک انکے جتنے بھی احکامات اور اقدامات ہیں وہ تمام غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں گورنر کے پاس اختیار ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 130(7)کے تحت جب وہ مطمئن ہوں کہ وزیراعلیٰ کے پاس اکثریت نہیں ہے
وہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں لہذا اپوزیشن جماعتوں کا یہ مطالبہ ہے کہ موجودہ صورتحال ، وزراءکے استعفوں اور وزیراعلیٰ کے اعتراف کے بعد آج اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لیا جائے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو آئینی اور جمہوری تقاضوں ، اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے خود ہی مستعفیٰ ہو جانا چاہےے تھا بلوچستان عوام پارٹی کے 24میں سے صرف 10ارکان وزیراعلیٰ کے ظہرانے میں شریک ہوئے پی ٹی آئی بھی کہہ چکی ہے کہ وہ اکثریت کا ساتھ دیگی انکے سات ارکان کو بھی الگ تصور کیا جائے وزیراعلیٰ کے پاس65کے ایوان میں سے صرف 7سے 8ارکان کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ آئینی بحران کو ختم کر کے لئے گورنر اپنا کردار ادا کریں انہوں نے کہا کہ جام کمال خان ماضی کا حصہ ہوگئے ہیں
صوبے میں انکی حکومت امن و امان قائم رکھنے میں بھی ناکام رہی ایک سوال کے جواب میں ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم نہیں متحدہ اپوزیشن جماعتوں کا اقدام ہے جب وزیراعلیٰ کے پاس اکثریت باقی نہیں ہے تو اس میں تحریک عدم کی بات ہی نہیں رہی انہیں اعتماد کا ووٹ لینا چاہےے ۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کئی دنوں سے ارکان اسمبلی کی منت سماجت کر رہے ہیں مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہورہی گزشتہ روز بھی مولانا عبدالغفور حیدری نے انہیں بتایا کہ وقت گزر چکا ہے حکومتی ارکان 10دن کراچی میں رہے اس دوران بھی ان سے مذاکرات ہوئے تب بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی وزیراعلیٰ نے کئی لوگوں کو لالچ اور مراعات دیں مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوہی اب وزیراعلیٰ بجٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے ٹینڈ، ٹرانسفر پوسٹنگ ، آرڈر کر رہے ہیں تاکہ ارکان کو لالچ اس صورتحا ل میں گورنر اپنا آئینی کردار ادا کریں
،بی این پی کے رکن ثناءبلوچ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی ضرورت تب ہوتی ہے جب اکثریت ہو یہاں وزیراعلیٰ خود ہی اکثریت نہ ہونے کا دعویٰ کر چکے ہیں صوبے کی تاریخ میں آج تک اجتماعی استعفے نہیں آئے صوبے میں آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند بنایا جائے وزیراعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست ہارنے کے بعد اعتماد کا ووٹ لیا تھا انہوں نے کہا کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جو سیاسی، ارکان اسمبلی اور عوام کا اعتماد کھو دینے والے وز یر اعلیٰ کو استعفیٰ دینے سے روک رہی ہیں