استعفے ایٹم بم کی طرح استعمال کرنے کی بات کہیں نہیں ہوئی، مولانا فضل الرحمن

0 88

پی ڈی ایم امتحد ہے ، مختلف مسائل پر اختلافات رائے ہوتی ہے ،9 جماعتوں کا مو¿قف واضح طور پر سامنے آیا ہے ،پیپلزپارٹی کے مو¿قف کا انتظار ہے، خدا کرے ان کو بات سمجھ آئے،اسلامی نظریاتی کونسل کا کام قرآن و سنت کے مطابق سفارشات دینا ہے، تقریب سے خطاب
پشاور(امروز ویب ڈیسک)اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے شروع میں ہی شامل کیے گئے تھے اور کہیں نہیں کہا گیا حتمی آپشن یا ایٹم بم کی طرح استعمال ہوں گے، پی ڈی ایم امتحد ہے ، مختلف مسائل پر اختلافات رائے ہوتی ہے ،9 جماعتوں کا مو¿قف واضح طور پر سامنے آیا ہے ،پیپلزپارٹی کے مو¿قف کا انتظار ہے، خدا کرے ان کو بات سمجھ آئے،اسلامی نظریاتی کونسل کا کام قرآن و سنت کے مطابق سفارشات دینا ہے۔ بدھ کو یہاں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختصر الفاظ میں کہہ دیتا ہوں

کہ پی ڈی ایم متحد ہے، مختلف مسائل پر اختلاف رائے ہوتی ہے اورکل بھی مختلف رائے آئی۔انہوںنے کہاکہ جب پی ڈی ایم بنا رہے تھے تو اس وقت ہم نے استعفے کا آپشن رکھا تھا اور اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ حتمی آپشن ہوگا، ایٹم بم کی طرح ایسا کہیں نہیں لکھا۔پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے جلسے کیے اورلوگوں کا ردعمل دیکھا اور اب جب ہم نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف مارچ ہوگا تو 10 میں سے 9 جماعتوں کی رائے تھی کہ ہم جائیں تو استعفے دیں گے۔انہوںنے کہاکہ اس میں کوئی بات نہیں کہ پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دے دیں،

آدھا ایوان خالی ہوجائے گا اور انہیں الیکشن کروانے پڑیں گےلیکن پیپلزپارٹی نے نہیں مانا جبکہ اکثریت کی رائے استعفے دینے کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں مجالس کی اندر کی کہانی اصل میں راز ہوتی ہے جس کو افشاں کرنا خیانت اور بددیانت ہوتی ہے لیکن ایسا ہوا اور پیپلزپارٹی کو چند دن کی مہلت دی گئی کہ سی ای سی کے سامنے 9 جماعتوں کا مو¿قف رکھیں اورہمیں بتائیں۔انہوںنے کہاکہ9 جماعتوں کا مو¿قف واضح طور پر سامنے آیا ہے اور پیپلزپارٹی کے مو¿قف کا انتظار ہے، خدا کرے ان کو یہ بات سمجھ آئے اور9 جماعتوں کی رائے کا احترام کریں، پی ڈی ایم کے رکن اور ساتھ رہیں، ہم ان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین 1973 میں بنا، جس میں بنیادی سوال تھا کہ قانون سازی کے لیے اساس کیا ہو اور اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل دی گئی جس میں ہر مکتب فکر سے علما شامل کیے گئے۔انہوںنے کہاکہ اس کا کام قرآن و سنت کے مطابق سفارشات دینا ہے،

ہر سال کتابوں کی شکل میں سفارشات آتی ہیں لیکن آج تک کسی ایک پر عمل نہیں ہوا اور اس کے مطابق قانون سازی نہیں ہوئی حالانکہ اس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبے میں 2002 میں حکومت بنائی اور حسبہ بل لے کر آئے اور ایک سال تک اس پر بحث کی، اس پر سمینار کروائے، ہر فکر کے وکلا کو اس میں بلایا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم قانون سازیاں کرتے ہیں، پھرہمارے اوپر بین الاقوامی دباو¿ آتا ہے، جب ریاست پر بین الاقوامی دباو¿ آتا ہے اور اس دباو¿ میں ہم کوئی قانون بناتے ہیں یا قانون تبدیل کرتے ہیں تو اسی سے اندازہ لگائیں کہ ہماری آزادی کدھر ہے۔انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں خارجہ پالیسی کے موضوع میں اسرائیل اور برطانیہ دونوں کا ذکر موجود ہے، گزشتہ دو برسوں میں ہم آرام سے نہیں بیٹھے اور انہیں اس ایجنڈے پر پیش رفت بھی نہیں ہونے دی۔

مدارس کے سلیبس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے علمائے کرام نے سلیبس کو ایک رکھنے کے لیے بڑی کاو¿شیں کی۔انہوںنے کہاکہ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع نے 4 سال تک حکومت اور بیورکریسی کے گفتگو کی کہ آئیے ہم نصاب ایک کریں لیکن پذیرائی نہیں بخشی گئی، تب جا کر دارالعلوم کی بنیاد رکھی۔انہوں نے کہا کہ آج بین الاقوامی دباو¿ کے تحت دینی علوم کے مراکز پر پہلے مداخلت کرنا چاہتے ہو، اس کے کردار کو کمزور کرکے بالآخر ختم کرنا چاہتے ہو لیکن ہم دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ دینی علوم کا تحفظ کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے اس قوم کے ساتھ کیا کردیا،ڈیڑھ کروڑ کی پشتون قبائلی آبادی کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا، اس حوالے سے رپورٹ میرے سامنے رکھی گئی تھی جس کو میں نے حقائق کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔انہوںنے کہاکہ انہوں نے خود لکھا کہ قبائلی علاقوں کو ہم 10 سال تک ایک ہزار ارب روپے دیں گے یعنی ہرسال 100 ارب تاکہ قبائلی علاقوں کو دیگر علاقوں کے برابر لایا جائے لیکن 5 سال ہوگئے ہیں لیکن ایک روپیہ نہیں دیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ چھوٹے کام ہوئے ہوں گے تاہم اس رپورٹ میں جو کہا گیا تھا اس کے مطابق ایک روپیہ نہیں دیا گیا، وہاں سرے سے لینڈ ریکارڈ ہی نہیں ہے، وہاں زمین کی تقسیم کیسے ہوگی، آج قبائل آپس میں لڑ رہے ہیں اور یہ تماشا دیکھ رہے ہیں، اس کے لیے ایک پیپر تیار کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جو آئینی ترمیم تیار کی گئی تھی کیا وہ آئینی تقاضوں کے مطابق تھی، اس پر کیا ایوان میں بحث ہوئی، کیا لوگوں کی رائے سنی گئی، کچھ بھی نہیں کیا گیا، میں نواز شریف کے ساتھ ہونے کے باوجود اکیلے اس کی مخالفت کی جبکہ دیگر اپوزیشن سب ایک ساتھ تھے۔انہوںنے کہاکہ بین الاقوامی ایجنڈا آتا ہے تو ہماری اپوزیشن اور حکومت اکٹھی ہوجاتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.