بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں اور زیادتیوں کااعتراف ایوب خان سے لیکر عمران خان تک سب نے کیاہے،سردار اختر مینگل
سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کو ہمیشہ قربانی کا بکرا بنایاہے اور اپنی اقتدار کی طغیانی تھامنے کیلئے بلوچستانیوں کی بھلی چڑھائی گئی ہے
کوئٹہ(امروز ویب دیسک)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کو ہمیشہ قربانی کا بکرا بنایاہے اور اپنی اقتدار کی طغیانی تھامنے کیلئے بلوچستانیوں کی بھلی چڑھائی گئی ہے ،دنیا میں جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں باڑ نہیں ہوتی ،1952ءمیں سوئی سے نکلنے والے گیس سے پاکستان فیض یاب لیکن بلوچستان کے تین اضلاع کے سوا تمام صوبہ محروم ہیں ،سی پیک کے نام پر 65ملین ڈالرز آئے تو گئے کہاں ؟ایک انچ روڈ بھی سی پیک فنڈز سے نہیں بنا ترقیاتی منصوبے کاغذوں تک محدود ہیں ،نواب اکبر خان بگٹی فیڈریشن کے حامی اور سیاسی جدوجہد پریقین رکھتے تھے کیاوجوہات تھیں کہ ضعیف العمر شخص اپنی آسائشیں اور بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری کرنے والے کو پہاڑوں پرپہنچ گئے ،بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں اور زیادتیوں کااعتراف ایوب خان سے لیکر عمران خان تک سب نے کیاہے لیکن یہاں کے حالات کو اس نہج پر پہنچانے والوں کی آج تک نشاندہی نہیں ہوئی جب تک مسائل کاجڑھ نہیں ڈھونڈیںگے تو مسائل حل نہیں ہونگے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے ساﺅتھ ایشیاءپریس کو دئےے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچستان کو ہمیشہ سے ایک کالونی کے طورپر لیاگیاہے اور یہ مائنڈ سیٹ آج کا نہیں بلکہ 47سے چلا آرہاہے جو آج تک تبدیل نہیں ہواہے ،دنیا ساحل کو خوش قسمتی سمجھتے ہیں بلوچستان جس کی بارڈر دو ممالک کے ساتھ منسلک ہے نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر دنیا کی نگاہیں ان دونوں ممالک پر ہے جس کی وجہ سے میرے خیال میں بلوچستان اسٹیبلشمنٹ کیلئے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیاہے جس کو ہم مثبت اہمیت کی بجائے منفی اہمیت تصور کی جاتی ہے انہوں نے کہاکہ اب یہ سیاسی جماعتوں پر منحصر ہوتاہے کہ وہ اپنے اقتدار کیلئے بلوچستان کو قربانی کا بکرا سمجھ کر دریائے نیل کی طرح جو طغیانی کو بچانے کیلئے ہمیشہ کسی کو قربان کیا جاتا تھا اقتدار کی طغیانی کو تھامنے کیلئے بلوچستان کی بھلی چڑھائی گئی ہے ،سیاسی جماعتوں کو وطیرہ اور سوچ یہی رہا تو ہمارا یہی حال ہوگا ،انہوں نے کہاکہ چین کے پنجے ایک جگہ پر نہیں ٹکتے اس کی کالونائزیشن بلوچستان سے شروع ہوکر پاکستان تک پہنچے گی ،سی پیک کے نام سے گوادر کو ترقی دی جارہی ہے دنیا میں جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں باڑیں نہیں دیکھی گوادر کی آبادی میں 95فیصد ماہی گیر ہے جن کا گزربسر ماہی گیری کے شعبے سے ہے جنہیں کارڈ دیاگیاہے اب ماہی گیرجو 15،پندرہ دن سمندر میں اپنی دو وقت کی روٹی کیلئے رہتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ سیندک کو چین کے حوالے کیاگیا جس کی رائلٹی صرف2فیصد بلوچستان کو ملتی تھی سوئی گیس 1952میں دریافت ہوئی اور 62میں پورے پاکستان کو پہنچ گئی لیکن آج ہمارے گھر میں نہیں آئے ،بلوچستان کی 95فیصد علاقے سوائے تین ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز دیگر تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اس گیس سے محروم ہیں ،بلوچستان میں گوادر جس کو ترقی دی جارہی ہے وہاں ایران سے بجلی آرہی ہے تربت ،پنجگور ،خاران جو ایران بارڈر سے ملتے کو ایران سے بجلی مل رہی ہے ،ہمیں پتہ نہیں کہ سی پیک کے 65ملین ڈالرز آئے تو گئے کہاں ؟ بلوچستان میں ایک انچ روڈ بھی سی پیک کے فنڈز سے نہیں بنا ہے گوادر ایکسپریس وے جو پورٹ سے لیکر چائینز کی ریذیڈنس بنائے گئے وہاں تک ہے ،ترقیاتی منصوبے کاغذات تک محدود ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہوتاہے کچھ سیاسی طریقے سے مسائل کے حل کے حق میں ہے جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ سیاسی طریقے سے مسائل حل کرنا بھینس کے آگے بین بجاناہے جن لوگوں نے یہاں اپنی زندگی سیاسی جدوجہد میں گزاری وہ مایوس ہوگئے نواب اکبر خان بگٹی خود سیاسی جدوجہد کا حصہ تھے جو فیڈریشن پر یقین رکھتے تھے نواب بگٹی پاکستان وفاقی وزیر،بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر کے علاوہ اپوزیشن لیڈر رہ چکے تھے وہ کیا وجوہات تھی کہ وہ مجبور ہوگئے کہ اپنی اسائش اور گھر چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے گئے ایک ضعیف العمر شخص جس کو اس حد تک مجبور کیاجاتاہے جبکہ ڈاکٹر اللہ نذر جنہوں نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیاہوا تھا ایسی کیا وجوہات تھیں انہیں گرفتار کیاگیا اسٹریچر پر انہیں عدالت میں پیش کیاگیا اب اس کے ساتھ زیادتیاں تو ہوئی ہوں گی جو اپنے پیروں پر عدالت نہیں آسکیں ،ان زیادتیوں کا ازالہ کی بجائے زخموں پر نمک نہیں بلکہ تیزاب چھڑکایاگیاہے اور تیزاب کااثر پھر نشانات چھوڑ دیتاہے اور بلوچستان کے ساتھ ہونے والے ان زیادتیوں کااعتراف ہر حکمران نے اپنے دور میں کیاہے ایوب خان سے لیکر موجودہ حکمران عمران خان اس بات کااعتراف کررہے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں ان زیادتیوں کرنے والوں کی نشاندہی کی ضرورت ہے ،اگر کوئی ہتھیار اٹھاتا ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ غلط ہے اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صحیح ہے انہیں اس حد تک مجبور کیاگیاکہ انہوں نے ہتھیار اٹھائے ،جب تک ان مسائل کا جڑھ نہیں ڈھونڈا جاتامسائل حل نہیں ہونگے بلوچستان کے حالات کو اس نہج پر پہنچانے والے ذمہ داروں کو آج تک عدالتوں سے کوئی سزا نہیں ہوئی شاید انہیں درست تصور کیاجارہاہے ۔