ہماری سوچ اور راستے مختلف ہو سکتے ہیں ، جمہوریت اور پاکستان کی مضبوطی کیلئے سب متفق ہیں، اراکین سینٹ

0 118

ایوان کو جو اختیارات دینے چاہئیں تھے نہیں دیئے گئے،منی بل میں سینیٹ کو اختیارات دئیے جاتے تو آج دو نہیں ایک پاکستان ہوتا، صوبوں میں پھیلنی والی بے چینی کو ختم کرنا ہے تو سینیٹ کو بااختیار کرنا ہو گا،وزیراعظم کے چناو¿ میں سینیٹ کا کردار ہونا چاہیے،سینیٹ کا ممبر بھی وزیراعظم تک پہنچنا چاہیے،

سینیٹ سے مسترد شدہ بل قومی اسمبلی سے منظور کر کے سینیٹرز کی رائے کو بلڈوز کیا جاتا ہے،وفاقی اکائیوں بااختیارات بنانے کیلئے سینیٹ کو اختیارات دینا ہو گا،آئین کی بجائے فسطائی نظام نافذ کرےں تو وطن کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے،شہزاد وسیم ، عثمان کاکڑ، فیصل جاوید ،خوش بخت شجاعت ،سینیٹر کبیر شاہی و دیگر کا خطاب

اسلام آباد(امروز ویب ڈیسک) اراکین سینٹ نے کہاہے کہ ہماری سوچ اور راستے مختلف ہو سکتے ہیں ، جمہوریت اور پاکستان کی مضبوطی کیلئے سب متفق ہیں، ایوان کو جو اختیارات دینے چاہئیں تھے نہیں دیئے گئے،منی بل میں سینیٹ کو اختیارات دئیے جاتے تو آج دو نہیں ایک پاکستان ہوتا، صوبوں میں پھیلنی والی بے چینی کو ختم کرنا ہے تو سینیٹ کو بااختیار کرنا ہو گا،وزیراعظم کے چناو¿ میں سینیٹ کا کردار ہونا چاہیے،سینیٹ کا ممبر بھی وزیراعظم تک پہنچنا چاہیے،سینیٹ سے مسترد شدہ بل قومی اسمبلی سے منظور کر کے سینیٹرز کی رائے کو بلڈوز کیا جاتا ہے،وفاقی اکائیوں بااختیارات بنانے کیلئے سینیٹ کو اختیارات دینا ہو گا،آئین کی بجائے فسطائی نظام نافذ کرےں تو وطن کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔ بدھ کو سینیٹ کا پریزائیڈنگ آفیسر سینیٹر جاوید عباسی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے صحت خوش بخت شجاعت نے کہاکہ کمیٹی میں نامور ڈاکٹرز ممبر تھے،

جو میرے لئے اعزاز کی بات تھی،ان تمام نے میرے ساتھ تعاون کیا اور مفید مشورے دئیے۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہاکہ مجھے زور زبردستی کے ذریعے قائمہ کمیٹی صحت سے ہٹایا گیا،میرا قصور صرف پانچ ہزار ادویات کی قیمتوں میں کمی کرنا تھا،آج ادویات عام عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں ،اسلام آباد کے ایک ہسپتال اتنا طاقت ور ہے کہ انہوں نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا،عمران خان کو لکھ کر دینے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پی ٹی وی سمیت تمام کو ریشنیلائز ہونا چاہیے،سرکاری محکموں میں تنخواہوں کا مسئلہ درپیش ہے،اداروں میں بھاری بھاری تنخواہوں پر لوگوں کو بھرتی کیا ہوا ہے۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہاکہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا،گیارہ ہزار ملازمتوں کو ہمارے کوٹے سے الگ کر دیا گیا،پندرہ ہزار ملازمتیں ابھی مختلف اداروں اور کارپوریشز میں خالی ہیں ،

گزشتہ گیارہ سالوں میں تین فیصد سے کم کوٹہ ملا ہے۔ سینیٹرجاوید عباسی نے کہا کہ بلوچستان کوکوٹے کے مطابق فوری طور پر بھرتی عمل میں لائی جائے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے بھی اس حوالے سے بات ہو چکی،آغاز حقوق بلوچستان کے تحت ملازمتوں پر عملدرآمد کے اسٹیٹس کے حوالے سے ایوان کو آگا ہ کیا جائے۔قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ پارلیمانی سال کے آخری دو دن چل رہے ہیں ،سینیٹ کی خوبصورتی ہے کہ اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے،آدھے ممبران ریٹائرڈ ہو رہے ہیں،یہ آخری دو دن ان ممبران کو دئیے جائیں ،ان ممبران کا ہمارے اوپرقرض ہیں ،ان کو وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنے تجربات شیئر کرسکیں ،ہمارے جتنے ممبران ہیں سب نے اپنی استعداد کے مطابق ایوان میں بھر پور حصہ لیا،اس ایوان کی خصوصیت ہے کہ یہ تمام اکائیوں گلدستہ ہے،ہماری سوچ اور راستے مختلف ہو سکتے ہیں

مگر جمہوریت اور پاکستان کی مضبوطی کیلئے سب متفق ہیں ،ریٹائر ہونے والے ممبران سے زیادہ سنا چاہوں گا،سینیٹر ز کا ٹرم مکمل ہو تا ہے مگر سیاسی سفر ختم نہیں ہوتا،یہاں پر تمام ممبران کی کوششوں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ریٹائر ہونے والے سینیٹر میرکبیر محمد احمد شاہی نے کہاکہ چھ سال اس ایوان میں گزارا، بلوچستان کے لوگوں کا سب سے پہلے شکر یہ ادا کرتا ہوں ،لوگوں نے نیشنل پارٹی پر اعتماد کیا اور نیشنل پارٹی نے مجھ پر اعتماد کیا،لوگوں اور پارٹی کے حق کو ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی،بلوچستان اور ملک کے بڑے مقدمات کو ایوان میں لڑنے کی کوشش کی،مخلص دوستوں کی رفاقت کا سرمایہ ملنے پر اساتذہ شکریہ ادا کرتا ہوں ،سینیٹ سیکرٹریٹ اور میڈیا کا بھی میرے ساتھ بھر پور تعاون رہا،اس ایوان کو جو اختیارات دینے چاہئیں تھے نہیں دیئے گئے،منی بل میں سینیٹ کو اختیارات دئیے جاتے تو آج دو نہیں ایک پاکستان ہوتا۔

انہوںنے کہاکہ صوبوں میں پھیلنی والی بے چینی کو ختم کرنا ہے تو سینیٹ کو بااختیار کرنا ہو گا،وزیراعظم کے چناو¿ میں سینیٹ آف پاکستان کا کردار ہونا چاہیے،سینیٹ کا ممبر بھی وزیراعظم تک پہنچنا چاہیے،سینیٹ سے مسترد شدہ بل قومی اسمبلی سے منظور کر کے سینیٹرز کی رائے کو بلڈوز کیا جاتا ہے،وفاقی اکائیوں بااختیارات بنانے کیلئے سینیٹ کو اختیارات دینا ہو گا،گمشدہ افراد کا معاملہ ریاست کے ماتھے پر بدنما داغ ہے،لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کر کے سزاد دئیے جائیں ۔ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہاکہ ملک میں مختلف نشیب و فراز آتے رہے ہیں ،ہماری غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان الگ ہوا،آئین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مشرقی پاکستان الگ ہوا،آئین کی بجائے فسطائی نظام نافذ کرےں تو وطن کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے

،ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم نے غلطیاں کیں ، صرف سیاستدانوں کو غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے عوام کو بھی حق ہیں ،قوموں کو کنٹرول میں سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے نہیں محبت کے ذریعے رکھا جا سکتا ہے، غریبوں کی تباہی کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں ،جن لوگوں کے اکابرین نے آئین پاکستان پر دستخط کیے تھے آج وہ آزادی مانگ رہے ہیں ،اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا،فیصلے پاکستان کے حق میں ہونے چاہئیں ۔ انہوںنے کہاکہ لوگ سیڑھیوں پر چڑھ رہے ہیں ہم سیڑھیوں سے اتر رہے ہیں ،مہنگائی عروج پر پہنچ چکی،ملک میں داخلہ نہ خارجہ پالیسی ہے۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہاکہ ملک کے علاقائی زبانوں کا احترام ہونا چاہیے،انگریزوں کی خدمت کرنے والے ملک کا محب وطن ہو گئے،افغانستا ن کو پاکستان کا پانچواں صوبہ نہ سمجھا جائے

،افغانستان کے مستقبل کافیصلہ کرنے کا اختیار وہاں لوگوں کو ہیں ،کشمیریوں کی ایک ایک انچ پر حق حاکمیت اورملکیت کشمیریوں کا ہے۔ انہوںنے کہاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو بھی وہاں کے وسائل کا حق دیا جائے،لاپتہ افراد کا معاملہ بھی تشویشناک ہے، اگر کوئی مجرم ہے تو مقدمہ چلایا جائے،مسخ شدہ لاشیں ناقابل قبول ہے،یہ بند ہونا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ اسلام آباد میں استعماریت آباد ہیں،جو پارلیمنٹ، ای سی پی اور میڈیا پر کنٹرول کررہے ہیں ،احتساب سب کا ہونا چاہیے، سب سے پہلے سیاستدانوں سے کیا جائے،اگر ایوب خان کو سزا دی جاتی تو یحییٰ خان مارشل لاءکی جرات نہ کرتا،غدارٹھہرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے،غدار وہ ہیں جنہوں نے فرنگیوں کا ساتھ دیا تھا۔ سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہاکہ پارٹی قائد نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کا شکرگزار ہوں ،ساتھی سینیٹرز سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا،ہمیں برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے،ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر پالیسی سازی کرنا ہو نگے،الیکشن ریفارمز جیسے ایشوز پر ذاتیات سے بالا ہو کر کام کرنا ہو گا،کاش نواز شریف جیسا لیڈر مل جائے،

جو لوگوں کو توڑتا نہیں جوڑتا ہے۔سینیٹر ڈاکٹر نعمان وزیر نے کہاکہ ایوان میں سیاسی جماعتوں پر بے بنیاد الزام تراشی نہیں ہونا چاہیے،ممبران میں اصولوں کی بنیادی پر اپنے لیڈرشپ کے آگے ڈٹ جانے کی صلاحیت ہونی چاہئیں ،13اسٹیٹ آن انٹرپرائزز خسارے میں ہیں، ان کے بارے میں سوچنا ہو گا۔سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے کہاکہ پہلی دفعہ کسی جمہوری جماعت نے سابق ریٹائر جنرل کو ٹکٹ دیکر سینیٹرز منتخب کیا،جس پر پارٹی قائدین کا شکر گزار ہوں ،سینیٹ سیکرٹریٹ نے،میرے آفس نے بہت تعاون کیا،ہر سینیٹرز کیلئے آفس ہونا چاہیے جہاں بیٹھ کر ریسرچز کرسکیں ،پاکستان کے ہر صوبے کے مختلف علاقوں میں محرومی ہے،ایوان کی رائے پالیسی سازی کیلئے مفید ہونے چاہئیں ،کمیٹیوں میں پارٹیوں سے بالا تر ہو کر ملک کا سوچتے ہیں ،ممبران کی کمیٹیوں میں حاضری یقینی بنانے کی ضرورت ہے،ڈیفنس پراڈکشن کے ادارے بہترین انداز میں کام کررہے ہیں ،سینیٹ کو پوسٹ آفس بنانے کی بجائے بااختیار بنانا ہو گا،

ملکی قرضے نیشنل سیکیورٹی کیلئے بھی خطرہ بن گیا ہے،جس لیول کا خطرہ ہے اس لیول کا دفاع بھی ہونا چاہیے، اجلاس کے دور ان فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اورنگزیب خان کا ان پڑھوں کیلئے بھی ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کرنے کا مطالبہ کردیا ، اور نگزیب خان نے کہاکہ ایکس فاٹا کے دہشتگردی سے متاثرہ آبادی میں بہت افراد ان پڑھ ہیں، ایک خاندان میں سارے ان پڑھ ہیں تو وہ دہشتگردی نہ کرے تو کیا کرے، ایکس فاٹا کے انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے اس کو پورا نہیں کیا گیا۔ انہوںنے کہاکہ انضمام کے وقت قبائلیوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی،فاٹا کے عوا م کے حقوق کیلئے ہر وقت ایوان میں آواز اٹھائی۔ سینیٹر غوث محمد نیازی نے کہاکہ سینیٹ میں چھ سالوں میں بہت کچھ سیکھا، اس ایوان کو صوبوں کے حقوق کا خیال رکھنے کیلئے بنایا گیا،

ارکان سینیٹ اور صوبوں کے مابین مربوط تعلق ہونا چاہیے، ایوان کی توقیر کو برقرار رکھنے کیلئے کوششیں کی جائیں، ہم احتساب کے خلاف پہلے تھے نہ اب ہیں، پارٹی قیادت کیخلاف2017سے کیسز چل رہے ہیں مگر کچھ ثابت نہیں ہوا، صادق سنجرانی کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے ایوان میں اظہار خیال کا موقع دیا۔سینیٹ کا اجلاس 11مارچ صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا

Leave A Reply

Your email address will not be published.